فلوٹیلا میں گریٹا تھنبرگ کی گرفتاری: تشدد اور توہین آمیز سلوک کی تفصیلات سامنے آ گئیں

ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کو غزہ کی جانب امداد لے جانے والی فلوٹیلا میں شرکت کے دوران اسرائیلی فورسز نے حراست میں لے لیا، جس کے بعد ان کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی اطلاعات نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے۔
فلسطینی علاقوں کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش میں شامل بین الاقوامی “گلوبل سموُد فلوٹیلا” کو اسرائیلی بحریہ نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب روکا۔ اس دوران 40 سے زائد کشتیوں پر سوار سینکڑوں رضاکاروں کو حراست میں لے لیا گیا۔
فلوٹیلا میں شامل کارکنوں اور صحافیوں کے مطابق، گریٹا تھنبرگ کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ مبینہ طور پر انہیں اسرائیلی جھنڈے میں لپیٹ کر تصاویر لینے پر مجبور کیا گیا۔ ایک ترک رضاکار نے دعویٰ کیا کہ تھنبرگ کو بالوں سے گھسیٹا گیا اور زبردستی پرچم چومنے پر مجبور کیا گیا، جبکہ ایک اطالوی صحافی نے بتایا کہ انہیں “ٹرافی” کی طرح پریڈ کروایا گیا۔
سویڈن کی وزارت خارجہ کی ایک ای میل کے مطابق، گریٹا نے جیل میں پانی اور خوراک کی کمی، اور ممکنہ طور پر بستر کیڑے (بیڈ بگز) کی وجہ سے خارش کی شکایت کی۔ انہیں طویل وقت تک سخت فرش پر بٹھایا گیا اور ان کی حالت غیر تسلی بخش بتائی گئی۔
فلوٹیلا کی قانونی ٹیم اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام گرفتار رضاکاروں کو خوراک، پانی، صفائی اور قانونی نمائندگی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق، قیدیوں کے ساتھ زبانی اور جسمانی بدسلوکی کی گئی۔
اسرائیل کے وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویر نے فلوٹیلا کے شرکاء کو “دہشت گرد” قرار دیا اور قید کی حمایت کی۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب کچھ کارکنوں نے “فری فلسطین” کے نعرے لگائے۔
گریٹا تھنبرگ اس سے قبل بھی جون 2025 میں ایک فلوٹیلا مشن کے دوران حراست میں لی جا چکی ہیں، تاہم اس بار ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات نے خاص طور پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی توجہ حاصل کی ہے۔
اس واقعے پر تاحال اقوام متحدہ یا دیگر عالمی اداروں کی جانب سے رسمی بیان سامنے نہیں آیا، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ فلوٹیلا مشن اور اس کے خلاف کارروائی عالمی قوانین اور انسانی حقوق کے تناظر میں زیر بحث آئیں گے۔