
انڈونیشیا کے صوبے ویسٹ جاوا میں اسکول کے لنچ کھانے کے بعد فوڈ پوائزننگ کے واقعات میں 1000 سے زائد بچے متاثر ہوئے ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق یہ واقعات صوبے کے چار مختلف علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ کھانے ملک میں جاری “مفت غذائیت بخش کھانے” کے پروگرام کے تحت فراہم کیے جا رہے تھے، جو صدر پرابوو سبیانٹو کی حکومت کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کا مقصد لاکھوں بچوں کو روزانہ متوازن غذا فراہم کرنا ہے۔ تاہم حالیہ واقعات نے اس اسکیم کے معیار اور نگرانی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر کچن سروسز معطل کر دی گئی ہیں، اور کئی متاثرہ طلباء کو قریبی اسپتالوں اور عارضی طبی مراکز میں منتقل کیا گیا ہے۔ ویسٹ بینڈونگ میں تو صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی کہ ایک اسپورٹس ہال کو عارضی اسپتال میں تبدیل کرنا پڑا۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کھانے کی تیاری کے دوران صفائی اور ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے خوراک جلد خراب ہو گئی، جس کے نتیجے میں بچوں کی طبیعت بگڑ گئی۔ کچھ علاقوں میں کھانے رات کے وقت تیار کیے گئے اور اگلے دن اسکولوں میں پہنچائے گئے، جہاں انہیں فوری طور پر استعمال کیا گیا۔
ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق، پروگرام کے آغاز سے اب تک ملک بھر میں کم از کم 6,452 بچے فوڈ پوائزننگ کے شکار ہو چکے ہیں۔ ماہرین صحت اور مختلف تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس پروگرام کو وقتی طور پر معطل کر کے اس کی ازسرنو جانچ کی جائے۔
مقامی حکومت نے ویسٹ بینڈونگ میں صحت ایمرجنسی نافذ کر دی ہے تاکہ متاثرہ افراد کو فوری طبی امداد فراہم کی جا سکے۔ اس فیصلے سے صوبائی انتظامیہ کو اضافی فنڈز استعمال کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
صدر پرابوو کے دفتر کی جانب سے تاحال اس معاملے پر کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔