محاصرے میں بھی پیغام رسانی جاری: کن دو افراد نے فلوٹیلا کو دنیا سے جوڑے رکھا

بدھ کی رات غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والی عالمی بحری فلوٹیلا پر اسرائیلی افواج کے حملے نے دنیا بھر میں شدید ردعمل پیدا کیا۔ جب یہ حملہ ہوا، لاکھوں افراد ان مناظر کو آن لائن براہِ راست دیکھ رہے تھے۔
یہ قافلہ، جسے ”گلوبل صمود فلوٹیلا“ کا نام دیا گیا، چالیس سے زائد کشتیوں پر مشتمل تھا جن میں تقریباً پانچ سو افراد سوار تھے، جن میں انسانی حقوق کے کارکن، سیاستدان، وکلاء اور ماحولیاتی مہم جو شامل تھے۔
لائیو نشریات نے دنیا کو جھنجھوڑ دیا
اس فلوٹیلا کی کشتیوں پر نصب کیمروں اور جدید ٹریکنگ آلات کے ذریعے حملے کے مناظر براہِ راست نشر ہوئے۔ برطانیہ کے شہر گلاسگو میں دو ویب ڈویلپرز، لزی میلکم اور ڈینیئل پاورز، کشتیوں کی پوزیشن اور ویڈیوز مسلسل دنیا تک پہنچاتے رہے۔
فلوٹیلا کی ویب سائٹ پر صرف دو دنوں میں پچاس لاکھ سے زائد لوگوں نے رسائی حاصل کی۔ بدھ کے روز ڈھائی ملین اور جمعرات کو ساڑھے تین ملین وزیٹرز ریکارڈ کیے گئے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے عالمی آواز
فلوٹیلا نے جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، موبائل بیک اپ سسٹمز اور گارمن ڈیوائسز کے ذریعے کھلے سمندر میں بھی انٹرنیٹ رابطہ برقرار رکھا۔ کشتیوں پر موجود کارکنوں نے زوم کے ذریعے پریس کانفرنسز کیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس، ٹیلیگرام اور انسٹاگرام پر لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس دی گئیں۔
عالمی یکجہتی اور احتجاج
حملے کے فوراً بعد یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں کئی شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ لندن، پیرس، میکسیکو سٹی، کولمبیا، ملیشیا اور پاکستان سمیت درجنوں ممالک میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فلوٹیلا نے صرف امداد فراہم کرنے کا مشن ہی نہیں نبھایا بلکہ ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے۔
ایک نئی جہت
اسرائیل کے دعوے کہ یہ قافلہ اشتعال انگیزی کے لیے بھیجا گیا تھا، عالمی سطح پر تنقید کی زد میں آیا۔ کئی ممالک جیسے برطانیہ اور فرانس نے حالیہ مہینوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا، جو کہ عالمی رائے عامہ میں تبدیلی کا ثبوت ہے۔
”گلوبل صمود فلوٹیلا“ کی بنیاد جون میں تیونس میں منعقدہ ایک اجلاس میں رکھی گئی تھی، جہاں مختلف تنظیموں نے ایک منظم کوشش پر اتفاق کیا۔ صرف چند دنوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی خواہش ظاہر کی اور 500 ٹن سے زائد امداد جمع کی گئی۔
سفر جاری ہے
اگرچہ پہلی فلوٹیلا کو اسرائیلی افواج نے روک دیا، مگر اس کے بعد مزید گیارہ کشتیاں ایک نئی مہم کے لیے روانہ ہو چکی ہیں۔ عوامی حمایت، سوشل میڈیا، اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ تحریک اب محض ایک سفر نہیں بلکہ ایک عالمی جدوجہد میں تبدیل ہو چکی ہے۔