
اسلام آباد: آئی ایم ایف مشن کے دورۂ پاکستان سے قبل حکومت نے زیادہ تر شرائط پر عملدرآمد کرلیا ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق 51 میں سے بیشتر شرائط پوری کی جاچکی ہیں، جبکہ کچھ پر پیش رفت جاری ہے اور جن شرائط پر عمل مکمل نہیں ہوا ان کے لیے آئی ایم ایف سے پیشگی اجازت لی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق گیس ٹیرف کی ششماہی بنیاد پر ایڈجسٹمنٹ، نئی ٹیکس چھوٹ یا استثنیٰ نہ دینے، بجٹ 2025-26 کو آئی ایم ایف معیارات کے مطابق پاس کرنے اور بجٹ سے ہٹ کر اخراجات کی پارلیمانی منظوری جیسی شرائط پر عملدرآمد کیا جا چکا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی معاہدے، خصوصی اقتصادی زونز پر مراعات ختم کرنے اور زرعی آمدن پر ٹیکس قانون سازی کے اقدامات بھی مکمل کر لیے گئے ہیں۔
دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں کمپلائنس رسک مینجمنٹ سسٹم نافذ ہوچکا ہے، جبکہ اعلیٰ سطحی سرکاری عہدیداروں کے اثاثوں کی ڈکلیئریشن اور سرکاری اداروں میں حکومتی عمل دخل کم کرنے کے معاملات میں پیش رفت جاری ہے۔ اسی طرح انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق کو 1.25 فیصد ایوریج پر رکھنے کی شرط پر بھی عمل کیا گیا ہے۔
تاہم کچھ اہم شرائط ابھی باقی ہیں۔ گورننس اور کرپشن اسیسمنٹ رپورٹ کی اشاعت اور اس پر عملدرآمد کا ایکشن پلان مقررہ وقت پر مکمل نہیں ہوسکا، جس پر آئی ایم ایف کے سخت ردعمل کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
مزید برآں صوبائی حکومتیں 1.2 ٹریلین روپے کیش سرپلس کا ہدف حاصل نہ کرسکیں، ایف بی آر بھی گزشتہ مالی سال کا 12.3 ٹریلین روپے کا ٹیکس ہدف پورا نہ کر سکا اور تاجر دوست اسکیم کے تحت مطلوبہ محصولات جمع کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح 10 سرکاری اداروں کے قوانین میں ترمیم کا ہدف بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔