پاک-بھارت کشیدگی: طاقت، سیاست اور حقیقت کا تجزیہ:اسامہ ذوالفقار راحت

پاک-بھارت کشیدگی: طاقت، سیاست اور حقیقت کا تجزیہ:اسامہ ذوالفقار راحت
پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کوئی نئی بات نہیں، مگر جب دونوں ایٹمی طاقتیں جنگی لہجے میں بات کرنے لگیں، تو خطرے کی گھنٹیاں صرف سرحد پر نہیں، دنیا بھر میں بجنے لگتی ہیں۔
حال ہی میں بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات، سرحدی خلاف ورزیاں، اور میڈیا پر جنگی جنونیت نے خطے میں ایک بار پھر خطرناک فضا پیدا کر دی۔ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت، جو داخلی سطح پر معاشی بحران، کسانوں کی تحریک، اور اقلیتوں کے احتجاج کا سامنا کر رہی ہے، ایک بار پھر پرانا ہتھیار استعمال کر رہی ہے: پاکستان دشمنی۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھارتی حکومت اندرونی دباؤ میں آتی ہے، وہ توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کرتی ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے حالیہ بیانات اور سرحدی کارروائیاں اسی پالیسی کا تسلسل ہیں۔
مگر سوال یہ ہے: کیا خطہ ایک اور جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے؟
جواب واضح ہے—نہیں۔
پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ افواجِ پاکستان نے ہمیشہ دشمن کو بھرپور جواب دیا ہے، مگر پاکستان کی ریاستی پالیسی جنگ نہیں، امن اور استحکام پر مبنی ہے۔ پاکستان نے عالمی فورمز پر بارہا یہ مؤقف اپنایا ہے کہ مسائل کا حل مذاکرات میں ہے، میدانِ جنگ میں نہیں۔
تاہم یہ بھی واضح ہے کہ امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اگر بھارت نے کسی بھی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا، تو پاکستان دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے، اور اس کا جواب وہی ہوگا جو 27 فروری 2019 کو دیا گیا تھا۔
عالمی برادری کی خاموشی اور دوہرا معیار
افسوسناک امر یہ ہے کہ مغربی دنیا اور عالمی ادارے اکثر بھارتی جارحیت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بھارت کی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اقلیتوں پر مظالم، اور انتہا پسندی کا فروغ کھلی حقیقت ہے، مگر عالمی ضمیر خاموش ہے۔
یہ خاموشی صرف پاکستان کے لیے نہیں، خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ عالمی برادری کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ تجارتی مفادات کو ترجیح دے گی یا انسانیت اور امن کو۔
عوام کی آواز: جنگ نہیں، ترقی چاہیے
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی عوام، بالخصوص نوجوان نسل، جنگ نہیں چاہتی۔ بھارت ہو یا پاکستان، عام انسان روزگار، تعلیم، صحت اور سکون چاہتا ہے—بارود نہیں۔ جنگ صرف حکمرانوں کے ایجنڈے میں ہوتی ہے، عوام کے خوابوں میں نہیں۔
اختتامیہ: عقل، حکمت اور قومی مفاد کی ضرورت
یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت عقل، حکمت، اور عوامی مفاد کو ترجیح دے۔ جنگیں قوموں کو ترقی نہیں دیتیں، صرف قبریں اور کہانیاں چھوڑتی ہیں۔
پاکستان کو اپنی دفاعی تیاریوں پر فخر ہے، مگر اس کی اصل طاقت سفارتی حکمت، قومی یکجہتی اور اصولی موقف میں ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد، بیانیے میں سچائی، اور دنیا کے سامنے حقیقت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا:
“امن صرف ایک انتخاب نہیں، ایک ذمہ داری بھی ہے۔”