پاکستان میں اشرافیہ کی کرپشن، معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار

اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی و معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسیوں پر اثرانداز ہو کر معاشی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پالیسی سازی پر چند طاقتور گروہوں کے غلبے سے نہ صرف شفافیت متاثر ہوتی ہے بلکہ قومی معیشت کو نمایاں نقصان بھی پہنچتا ہے۔
آئی ایم ایف نے گورننس اور بدعنوانی سے متعلق اپنی رپورٹ میں 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے کا فوری آغاز کرنے کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کا دائرہ وفاقی سطح کی گورننس اور کرپشن تک محدود رکھا گیا ہے، جس میں حکومتی اداروں کے اندر پالیسیوں کے عدم تسلسل، کمزور نگرانی، اور پیچیدہ ٹیکس نظام کو معاشی سست روی کی اہم وجوہات قرار دیا گیا ہے۔
ایس آئی ایف سی کے اختیارات اور شفافیت پر سوالات
رپورٹ میں اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے اختیارات اور استثنیٰ پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اس کی سالانہ رپورٹ فوری جاری کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی تمام سرکاری خریداری کو بارہ ماہ میں ای-گورننس نظام پر منتقل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ پالیسی سازی اور عملدرآمد میں شفافیت بڑھائی جا سکے۔
اشرافیہ کے مفادات اور معاشی نقصان
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طاقتور اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی ہے، جس کے باعث معاشی ترقی سست پڑ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگر کرپشن پر مؤثر قابو پا لیا جائے تو پاکستان کی معاشی کارکردگی میں 5 سے 6.5 فیصد تک بہتری آ سکتی ہے۔
ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی، عدالتی نظام کی سست روی، اور سرکاری اخراجات میں شفافیت کے فقدان کو بھی بدعنوانی کے خطرات کا واضح اشارہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عوام کو مختلف سرکاری خدمات کے حصول کے لیے رشوت اور غیر ضروری ادائیگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ ترقیاتی فنڈز مخصوص حلقوں کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیے جاتے ہیں۔
شوگر سیکٹر کی مثال
رپورٹ میں چینی کے شعبے کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جہاں شوگر ملز مالکان نے پالیسیوں پر اثر انداز ہو کر اپنے کاروباری مفادت کو ترجیح دی۔ 2019 میں چینی کی برآمدات کی اجازت سے قیمتوں میں اضافہ ہوا، جب کہ وافر ذخیرہ کے باوجود مصنوعی قلت پیدا کی گئی۔
عدالتی نظام اور بدعنوانی
آئی ایم ایف نے عدلیہ کو پولیس اور پبلک پروکیورمنٹ کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ شعبوں میں شمار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی کارکردگی پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں پرانے قوانین، عملے کی دیانتداری کے مسائل، اور عدالتی عمل میں تاخیر شامل ہیں، جس سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ نیب کی جانب سے جنوری 2023 سے دسمبر 2024 تک کی 5.3 کھرب روپے کی ریکوری مجموعی معاشی نقصان کا صرف ایک حصہ ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن کے معاشی اثرات کہیں زیادہ وسیع ہیں۔









