
جنوبی ہندوستان کی ریاست میسور میں صدیوں قبل ایک مسلم حکمران نے جنگی ٹیکنالوجی کا تصور بدل دیا۔ ٹیپو سلطان نے اپنی فوج میں آہنی خول والے راکٹ متعارف کروائے، جو نہ صرف برطانوی فوج کے لیے خوف کا باعث بنے بلکہ مستقبل میں یورپ میں جدید راکٹ ٹیکنالوجی کی بنیاد بھی فراہم کی۔
تیسرے اینگلو میسور جنگ کے دوران، 1792 کی بہار میں، سرنگاپٹم کے قلعے کے اوپر آسمان میں شعلے بھڑک اٹھے۔ ٹیپو سلطان کی فوج نے قلعے کی فصیلوں کے پیچھے سے آہنی خول والے راکٹ داغے جو دو کلومیٹر تک پہنچ سکتے تھے۔ ان کی روشنی، رفتار اور غیر متوقع سمت نے برطانوی فوجیوں کو شدید متاثر کیا۔
ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی نے 1760 کی دہائی میں راکٹوں پر تجربات شروع کیے، جبکہ ٹیپو نے ان میں بہتری کر کے انہیں ایک منظم جنگی نظام میں تبدیل کیا۔ اس ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی خصوصیت آہنی خول تھی، جو راکٹوں کو زیادہ دباؤ، رفتار اور تباہ کن طاقت فراہم کرتی تھی۔
پولیلور کی جنگ (1780) میں ٹیپو سلطان کے راکٹوں نے برطانوی فوج کی صفوں کو لرزا دیا۔ گھوڑے خوفزدہ ہوئے اور کچھ راکٹ زمین پر گر کر خیموں میں آگ لگا دیتے تھے۔ ٹیپو سلطان نے ’’کُشون‘‘ کے نام سے راکٹ بریگیڈز قائم کیں، اور ہر یونٹ کے پاس دو سو کے قریب راکٹ باز ہوتے تھے۔
1799 میں سرنگاپٹم کے محاصرے کے دوران ٹیپو سلطان شہید ہوئے، اور ان کے آہنی راکٹ برطانوی فوج کے قبضے میں آئے۔ یہ راکٹ بعد میں لندن کے آرزینل بھیجے گئے، جہاں برطانوی انجینئر سر ولیم کانگریو نے ان کا مطالعہ کر کے مشہور ’’کانگریو راکٹس‘‘ تیار کیے۔
دو صدیوں بعد، کرناٹک کے ضلع شیموگا میں کھدائی کے دوران ہزاروں آہنی راکٹ برآمد ہوئے، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کے دور میں راکٹ بنانے اور ذخیرہ کرنے کا ایک منظم نظام موجود تھا۔
ٹیپو سلطان صرف ایک جنگجو بادشاہ نہیں بلکہ ایک موجد اور سائنس داں بھی تھے۔ انہوں نے دفاعی حکمت عملی، سکے سازی اور اسلحہ سازی میں سائنسی اصولوں کو اپنایا اور دکھایا کہ حقیقی طاقت جدت اور اختراع میں مضمر ہے۔
ماہرین کے مطابق، میسور کے راکٹ قدیم چائینیز فائر تیر اور جدید راکٹ ٹیکنالوجی کے درمیان ایک پل ہیں اور ٹیپو سلطان کی ایجاد نے آنے والی نسلوں کے لیے سائنسی اور جنگی اختراع کی راہیں ہموار کیں۔








