
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا نے اعلان کیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈنگ رکنے کے بعد اس کے بیشتر آپریشنز عارضی طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدام یکم اکتوبر 2025 سے شروع ہونے والے تازہ ترین حکومتی شٹ ڈاؤن کے بعد کیا گیا ہے۔
سرکاری نوٹس کے مطابق، ناسا “مزید اطلاع تک بند” رہے گا۔ ادارے کی ویب سائٹ، سوشل میڈیا اور دیگر مواصلاتی ذرائع بھی فی الحال غیر فعال ہو چکے ہیں۔ صرف وہ سرگرمیاں جاری رکھی جا رہی ہیں جو خلانوردوں کی حفاظت اور خلائی مشنوں کی سلامتی کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (ISS) پر موجود عملے کی نگرانی، نظام شمسی میں موجود خلائی جہازوں کی مانیٹرنگ، اور زمین کی جانب بڑھنے والے ایسٹروئیڈز کی نگرانی شامل ہے۔
یہ شٹ ڈاؤن ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکی کانگریس مالی سال کے آغاز پر بجٹ کی منظوری دینے میں ناکام رہی۔ نتیجتاً، تقریباً 20 لاکھ وفاقی ملازمین کی تنخواہیں روک دی گئی ہیں، جن میں ناسا کے ہزاروں اہلکار بھی شامل ہیں۔ صرف محدود عملہ موجود ہے جو انتہائی ناگزیر خدمات انجام دے رہا ہے۔
ناسا کے کئی اہم منصوبے، جن میں چاند پر دوبارہ انسان بھیجنے کی تیاری (آرٹیمیس پروگرام) اور سائنسی تحقیق کے مختلف پراجیکٹس شامل ہیں، تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ کئی تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ جاری شراکت داریاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
یہ صورتحال ناسا کے لیے نئی نہیں۔ ماضی میں، خاص طور پر 2018-2019 کے شٹ ڈاؤن کے دوران بھی ادارے کو اسی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس سے اس کی پیش رفت میں رکاوٹ آئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی ڈیڈلاک برقرار رہا تو خلائی تحقیق، سائنسی ترقی اور بین الاقوامی تعاون پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ناسا کی سرگرمیوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ واشنگٹن میں سیاسی رہنما کب تک کسی حل پر پہنچ پاتے ہیں۔