“غزہ کے لیے آواز بلند کرنے والے بھوکے، مگر باعزم — فلوٹیلا کارکنوں کا اسرائیلی کھانے سے انکار”

غزہ کی جانب امدادی سامان اور طبی سہولیات لے کر رواں دواں بین الاقوامی فلوٹیلا قافلے کو اسرائیلی بحری افواج نے روک دیا۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فورسز نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب فلوٹیلا کی 13 کشتیوں کو بین الاقوامی پانیوں میں گھیر کر ان میں سے چار پر قبضہ کر لیا اور عملے کے ساتھ موجود کمیونیکیشن سسٹمز کو معطل کر دیا گیا۔
قافلے کا مقصد غزہ کی ناکہ بندی توڑتے ہوئے محصور فلسطینیوں تک امداد پہنچانا تھا۔ فلوٹیلا میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن، صحافی اور سیاستدان شریک تھے۔ ایک کشتی پر معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی موجود تھیں، جنہوں نے اسرائیلی اہلکار کی جانب سے پیش کردہ کھانے کو لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ “اگر اسرائیل انسانی ہمدردی کا دعویدار ہوتا، تو وہ ہمیں غزہ تک رسائی دیتا۔”
گرفتار کیے گئے کارکنوں اور مسافروں نے اسرائیلی کھانے کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا اور اس اقدام کو فلسطینیوں سے یکجہتی کا مظاہرہ قرار دیا۔
اسرائیلی کارروائی کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ جرمنی، ترکی، اسپین، اٹلی، ملائیشیا، کولمبیا سمیت کئی ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ کولمبیا کے صدر نے اسرائیلی سفارتی عملے کو ملک بدر کرنے اور آزاد تجارتی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ترکی نے اس کارروائی کو “ریاستی دہشت گردی” قرار دیا، جبکہ برلن، استنبول، بارسلونا، روم اور کوالالمپور میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر آ کر فلوٹیلا کے حق میں آواز بلند کی۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پاور فل واٹر کینن اور کمانڈوز کے ذریعے بعض کشتیوں پر زبردستی قبضہ کیا گیا۔ کشتیوں پر سوار افراد کو اشدود سمیت مختلف بندرگاہوں پر منتقل کر کے حراست میں لیا گیا۔
ادھر فلوٹیلا کے منتظمین نے اعلان کیا ہے کہ مزید 30 کشتیاں بدستور غزہ کی طرف بڑھ رہی ہیں اور وہ کسی قیمت پر اپنی مہم روکنے کے لیے تیار نہیں۔
فلوٹیلا کے ایک ترجمان نے کہا، “ہمارا مشن انسانیت اور امن پر مبنی ہے، ہم مظلوموں کی حمایت میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔”