حماس کا مطالبہ: جنگ بندی کی ضمانت ٹرمپ اور عالمی طاقتیں دیں

مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا عمل جاری ہے، جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق رائے حاصل کرنا ہے۔
حماس کے مطابق تنظیم کی جانب سے تعمیری رویہ اپنایا گیا ہے اور طے شدہ اصولوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ قیدیوں اور یرغمالیوں کی فہرست کا تبادلہ مکمل ہو چکا ہے۔
تنظیم کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ حماس ایک دیرپا معاہدے کے لیے تیار ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ امریکا اور دیگر ثالث ممالک اس بات کی تحریری ضمانت دیں کہ جنگ کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب، ترک صدر رجب طیب اردوان نے مذاکرات میں جاری پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی حماس سے رابطے میں ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کوششوں کی حمایت کرتا ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ غزہ فلسطین کا ہی حصہ رہے گا۔
مذاکرات کے آج کے دور میں قطر کے وزیراعظم، امریکا کے خصوصی مندوبین اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر، اور ترکی کے انٹیلی جنس چیف ابراہیم قالن کی قیادت میں ترکی کا وفد بھی شریک ہو رہا ہے۔
حماس نے مذاکرات میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی سمیت کئی شرائط پیش کی ہیں جن پر مختلف فریقین غور کر رہے ہیں۔ یہ بات چیت ایک ممکنہ مستقل جنگ بندی اور انسانی بحران کے خاتمے کی امید کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔