اسلام آباد/راولپنڈی : نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں وسیع پیمانے پر بے ضابطگیوں اور مالی دھوکے کا انکشاف

اسلام آباد اور راولپنڈی میں نجی ہاؤسنگ اسکیموں اور کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بڑے پیمانے پر فراڈ اور منظم بے ضابطگیوں کا پردہ فاش ہوا ہے، جن کے باعث شہریوں کو مجموعی طور پر سیکڑوں ارب روپے کا مالی نقصان پہنچا۔ مختلف ہاؤسنگ منصوبوں نے منظور شدہ ریکارڈ سے کہیں زیادہ پلاٹس اور ممبرشپس فروخت کیں، جبکہ متعدد اسکیمیں مطلوبہ زمین کی خریداری یا ترقیاتی کام مکمل کرنے میں بھی ناکام رہیں۔
باخبر حلقوں کے مطابق نیب راولپنڈی نے اس معاملے کی جامع تحقیق کی جس میں سامنے آیا کہ دونوں شہروں میں نجی ہاؤسنگ اسکیموں نے دستیاب زمین اور منظور شدہ لے آؤٹ پلانز سے تقریباً 91 ہزار زائد پلاٹس اور فائلیں فروخت کیں، جبکہ 20 ہزار سے زائد ممبرشپس ایسی تھیں جن کے لیے زمین موجود ہی نہیں تھی۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ مختلف ہاؤسنگ اسکیموں نے مجموعی طور پر 80 ہزار کنال سے زائد زمین کی تشہیر کی اور فروخت بھی کی، حالانکہ یہ زمین ان کے منظور شدہ منصوبوں کا حصہ ہی نہیں تھی۔ ایک مخصوص نجی ہاؤسنگ اسکیم کی مثال اس صورتحال کی سنگینی واضح کرتی ہے، جس نے 2022 میں صرف 4 ہزار کنال زمین کے لے آؤٹ پلان کی منظوری مانگی، مگر عوام کے سامنے اسے 75 ہزار سے ایک لاکھ کنال کا منصوبہ ظاہر کیا۔ مارکیٹنگ کے دوران اس منصوبے کو 80 ہزار کنال کا پراجیکٹ بتایا گیا اور مبینہ طور پر 30 سے 40 ہزار پلاٹس فروخت کر کے 50 سے 60 ارب روپے تک اکٹھے کیے گئے۔ اس کے باوجود تین سال میں اسکیم صرف 34 ہزار کنال زمین ہی خرید سکی، وہ بھی غیر مربوط شکل میں، جبکہ ریگولیٹرز سے کوئی این او سی بھی حاصل نہ کیا گیا۔
یہ مسئلہ صرف چند نجی اسکیموں تک محدود نہیں۔ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بھی بڑا مالی اور انتظامی بحران سامنے آیا ہے۔ ان سوسائٹیز نے زمین کی عدم دستیابی کے باوجود ہزاروں ممبرشپس اور ایسے منصوبوں میں 65 ہزار سے زائد پلاٹس فروخت کیے جن میں قبضہ دینا ممکن نہیں تھا۔ فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایک کوآپریٹیو سوسائٹی میں پانچ ہزار ممبرز اب تک قبضے سے محروم ہیں، جبکہ ایک دوسری سوسائٹی نے اپنی دستیاب زمین سے کئی گنا زیادہ، تقریباً 35 ہزار پلاٹس فروخت کیے۔
تحقیقات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کئی ہاؤسنگ سوسائٹیز برسوں سے ترقیاتی کاموں اور قبضہ دینے کے وعدے کر رہی ہیں، مگر عملی پیشرفت نہ ہونے کے باعث ہزاروں خاندان شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کئی متاثرین ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پلاٹوں کے قبضے اور ترقیاتی کاموں کا انتظار کر رہے ہیں۔
سرکاری حکام کے مطابق یہ بحران بنیادی طور پر ریگولیٹری کمزوریوں، انتظامی غفلت اور ڈویلپرز کی جانب سے غلط بیانی اور گمراہ کن مارکیٹنگ کے باعث شدت اختیار کرتا گیا۔
ڈی جی نیب راولپنڈی وقار چوہان کے مطابق تمام اعداد و شمار متعلقہ اداروں سے حاصل کیے گئے ہیں تاکہ تحقیقات مستند اور شواہد پر مبنی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ نیب ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے ایک جامع اصلاحاتی پیکیج پر بھی کام کر رہا ہے، جس کا مقصد اس شعبے میں شفافیت لانا اور شہریوں کو مستقبل میں ایسے فراڈ سے محفوظ رکھنا ہے۔
متاثرین میں سرکاری ملازمین، ریٹائرڈ افراد، پروفیشنلز اور عام شہری شامل ہیں جنہوں نے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی ایک گھر کے حصول کی امید پر خرچ کی، مگر تاحال انہیں وعدوں کے باوجود نہ قبضہ ملا اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کی تکمیل۔









