ہائی پروفائل کیسزمیں سپریم کورٹ نے افسران کے تبادلوں پر پابندی عائد کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں تفتیشی معاملات میں حکومتی شخصیات کی مداخلت پرازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے گزشتہ رات ازخود نوٹس لیا تھا۔؎
اٹارنی جنرل اشتراوصاف عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس پاکستان نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے پیپربک پڑھا ہے۔
اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ جی میں نے پڑھا ہے۔ پیپربک میں عدالت کے معزز جج کی جانب سے مداخلت کے بارے میں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس نوٹس لینے کی جووجوہات ہیں۔ وجوہات صفحہ نمبر دو پر موجود ہیں،وہ پڑھیں۔
پیپربک نمبردومیں ڈاکٹر رضوان کی اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے موت کا ذکر ہے۔ ازخود نوٹس کیس میں تیارکی گئی پیپربک میں مختلف اخبارات کے تراشے شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ حمزہ شریف کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسران تبدیل کیے گئے۔ ڈی جی ایف آئی اے جیسے قابل افسر کو بٹایا گیا۔ ڈاکٹررضوان ہارٹ اٹیک سے وفات پاگئے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کہ بتایا جائے ہائی پروفائل کیسزمیں افسران کے تقررتبادلے کیوں کیے گئے؟ ہم نے پراسیکیوشن برانچ کے شفاف اور آزادانہ کام کو یقینی بنانا ہے۔
جج نوٹ میں کہا گیا کہ یف آئی اے کے لاہورکی عدالت میں پراسیکیوٹرکو تبدیل کردیا گیا۔ ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹررضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سوموٹو کا بیک گراؤنڈ آپ نے پڑھ لیا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی کو پیش ہونے سے منع کیا۔ پراسیکیوشن برانچ اورپراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ پراسیکیوشن کو کیوں ہٹایا گیا جاننا چاہتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں اچھا کام کررہے تھے۔ کے پی کے میں بھی ان کی کارکردگی اچھی تھی۔ ڈی جی ایف آئی اے ثناءاللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسرہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ڈاکٹررضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا۔ ڈاکٹررضوان کو بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا۔ ان معاملات پرتشویش ہے۔