چیف کابڑاترلا

0
120

اسلام آباد: سبکدوش ہونیوالے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل نگران حکومت سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ قواعد و ضوابط اور پالیسی میں نرمی اختیار کرتے ہوئے صرف ایک بار کیلئے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے درجنوں یومیہ اجرت پر کام کرنیوالے ملازمین کو پکا کیا جائے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریسٹ ہاؤسز، لاجز اور رجسٹری میں مینٹیننس کا کام کرتے ہیں۔

سرکاری دستاویز سے یہ بات عیاں ہے کہ 22 اگست 2023 ء کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہونیوالی ایک میٹنگ میں شرکت کرنے والے سرکاری افسران کو بتایا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی خواہش ہے کہ مذکورہ ملازمین کو پکا کیا جائے اور اس کے لیے پی ڈبلیو ڈی کے قواعد و ضوابط میں نرمی اختیار کرتے ہوئے ریگولرائزیشن کا عمل شروع کیا جائے اور نئی بھرتیوں کی بجائے مذکورہ ملازمین کو ہی اولین ترجیح دی جائے۔

11 ستمبر 2023ء کو وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے وزیراعظم کیلئے سمری ارسال کی ، جس میں اوپن اشتہار، عمر کی بالائی حد ،اہلیت اور ’’منتخب لاٹ‘‘ کو پکا کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سرپلس پول سے این او سی کی شرائط میں نرمی کی درخواست کی گئی۔

فی الحال یہ سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں موجود ہے اور ذرائع کادعویٰ ہے کہ اس کیس کو فوری طور پر وزیراعظم آف پاکستان کی منظوری کیلئے وزیراعظم آفس میں بھجوانے کیلئے کوششیں تیز ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرائع کے مطابق اعلیٰ عدلیہ ماضی میں بھی قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے اس قسم کی بھرتیوں کے خلاف متعدد فیصلے کر چکی ہے لہٰذا اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

11 ستمبر کو وزیر اعظم کیلئے سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی جانب سے بھیجی گئی سمری میں تحریر کیا گیا ہے کہ ججز انکلیو اسلام آباد، سپریم کورٹ برانچ رجسٹری پشاور ، جوڈیشل لاجز پشاور اور ججز لاجز مری میں دیکھ بھال کے انتظامات پی ڈبلیو ڈی کے پاس ہیں اور ان مقامات پر اس وقت مینٹیننس کے کام پر یومیہ اجرت پر رکھے گئے 81 ملازمین کام کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ کی زیر صدارت 10 مارچ کو ایک اجلاس منعقد ہوا تھا ، جس میں ان یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کو پکا کرنے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مذکورہ اجلاس میں درج بالا مقامات پر مختلف آسامیاں پیدا کرنیکا بھی فیصلہ کیا گیا۔

بعد ازاں انٹر ڈویژن مشاورت کی روشنی میں فنانس ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کیجانب سے پی ڈبلیو ڈی میں 103 اسامیاں تخلیق کرنے کی حتمی منظوری دے دی گئی ، ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد اخراجات پی ڈبلیو ڈی کیلئے مالی سال 2023-2024 میں مختص کردہ فنڈ سے پورے کیے جائیں گے۔ لہٰذا 22 اگست کو سپریم کورٹ میں ہونے والے اجلاس کے دوران رجسٹرار سپریم کورٹ نے درخواست کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی خواہش ہے کہ پی ڈبلیو ڈی مذکورہ سیٹ اپ میں پہلے سے کام کرنے والے ورک چارج/ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کو پکا کرنے کا عمل شروع کر سکتا ہے ، اور ان ملازمین کو نئی بھرتیوں میں ترجیح دینے پر غور کیا جائے ۔

سرکاری دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عملے کی ریگولرائزیشن کسی وزارت یا محکمے کے دائرہ کار میں نہیں آتی ۔ سول سرونٹس ایکٹ، 1973ء یا اس کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط میں باقاعدہ اسامی کے حوالے سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے عملے کو پکا کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں لکھی گئی۔ تاہم سپریم کورٹ آف کی خواہش ہے کہ پاک پی ڈبلیو ڈی نے ایک باضابطہ تجویز پیش کی ہے کہ ان ملازمین کو صرف ایک مرتبہ کے کیس کے طور ریگولرائز کرنے کی اجازت دے دی جائے۔

سمری میں مزید کہا گیا ہے کہ بھرتی کے قواعد اور پالیسی وزیر اعظم آف پاکستان کی منظوری سے جاری کردہ سول سرونٹس رولز 1993ء کے تحت وضع کی گئی ہے ، لہٰذا، وزیر اعظم ان قواعد و ضوابط میں کسی طرح کی نرمی کی اجازت دینے کے مجاز ہیں۔ لہٰذا، تجویز ہے کہ وزیر اعظم آف پاکستان اس وزارت کے انچارج وزیر ہونے کی حیثیت سے اس سمری کو جمع کروانے کی اجازت دیں اور پی ڈبلیو ڈی رولز میں نرمی کی اجازت دیں تاکہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے سپریم کورٹ آف پاکستان کی مذکورہ بالا عمارتوں میں مینٹیننس کے کام پر مامور 81 ڈیلی اجرت والے ملازمین کو پکا کیا جا سکے۔

Leave a reply