وجد اور وجدانی کیفیت تحریر :زوہیب شیخ 154

وجد اور وجدانی کیفیت تحریر :زوہیب شیخ

وجد ایک ایسا روحانی جذبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے باطنِ انسانی پر وارد ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں خوشی یا غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس جذبے کے وارد ہونے سے باطن کی ہیت بدل جاتی ہے اور اس کے اندر رجوع اِلَی کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

گویا وجد ایک قسم کی راحت ہے، یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس کی صفات نفس مغلوب ہوں اور اس کی نظریں اللہ تعالٰی کی طرف لگی ہوں ۔ جس انسان پر یہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے وہ اصولوں کی جنگ ہار جاتا ہے اور کملی بن کر کبھی بلھے شاہ جیسا گھومتا ہے اور کبھی دنیاوی عیش و آرام ہونے کے باوجود حضرت واصف علی واصف بن جاتا ہے ۔

خودی کی سرشاری میں ایک کیفیت میں مگن مارا مارا پھرنے کے بعد ایک سلیقہ محبت حاصل ہوتا ہے اور اسی سلیقے کو انسانی اوکاف کی زبان میں وجدانی کیفیت کہتے ہیں ۔ درحقیقت انسانی فطرت اس کے برعکس ہے وہ کیسے ؟ یہی سوال ہر وقت لوگوں کی چشمِ تصور میں گونجتا رہتا ہے کہ ہر کوئ تو ﷲ ﷲ کرتا ہے مگر وجد کسی کسی کو حاصل ہی کیوں ہوتا ہے ؟
اس بات کی گہرائی نا
پنے کے لئے اگر کوئی بحر اوقیانوس میں غوطے بھی لگائے گا تو بھی جواب حاصل کرنے میں ناکام رہے گا اور اس کی ذہانت ناقص اور علم فاطر سمجھا جائے گا ۔ وجد سے پہلے خودی کا تصور سمجھنا ضروری ہے خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل معانی رکھتا ہے ١) انانیت ٢) خود پرستی ٣) خود مختاری ٤) خود سری ٥) خود رائی ٦) خود غرضی ٧) نخوت، تکبر ٨)اپنے اوپر بھرپور بھروسہ کرتے ہوئے سب کچھ حاصل کر لینا.

اگر انسان نے اس خودی کو اپنے اندر رائج باطن کو نکال پھنکا تو ہی وجد حاصل ہو گا ۔ اور وجد سے ہی وجدانی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور پھر جس کو ہو جائے وہ پھر
بےنیازی کی طرف نکل جاتے ہیں بے اختیار ہو جاتے ہیں
شاعر ایسوں کے عشق میں مبتلا ہونے کے بارے میں لکھتا ہے

من میں بسی لوبان کی خوشبو، عطر وطر سب بھولا
ذات عقیدہ راکھ ہو گئے، عشق کا جل گیا چولہا
ٹوپی اتری، تسبیح ٹوٹی، ڈھول پہ رقص ہوا
عشق میرا تعویذ بن گیا، دل پہ نقش ہوا
مجھ پہ لگ گئی تہمت شہمت، میں بدنام ہوا
گانا بجانا، نچنا نچانا میرا کام ہوا
پھر میں مست ہوا، برباد ہوا
عشق کا کلمہ یاد ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

وجد اور وجدانی کیفیت تحریر :زوہیب شیخ“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں