جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں لاہورہائیکورٹ کا 5 رکنی فل بنچ محمود الرشید، سبطین خان سمیت دیگر کی اپیلوں پر سماعت کر رہے ہیں۔
فل بنچ میں جسٹس شاہد جمیل خان، جسٹس شہرام سرور چودھری، جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ شامل ہیں۔
پنجاب حکومت کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جواد یعقوب اوراسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر طیب جان، وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصراحمد پیش ہیں
اپیل کنندگان کی طرف سے امتیاز صدیقی اور اظہر صدیق ایڈووکیٹس جبکہ وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کی طرف سے منصورعثمان اعوان ایڈووکیٹ عدالت میں موجود ہیں۔
جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ جواد یعقوب صاحب! آئین کا آرٹیکل 140 پڑھیں
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب نے جواب دیا کہ آئین کے تحت گورنر صوبے میں ہائیکورٹ کا جج بننے کی اہلیت کے حامل فرد کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مقررکرسکتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے آپ نے کہا تھا کہ حکومت نے آپ کو ڈیوٹی تفویض کردی تھی۔ ہم ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کے جواب کو سراہتے ہیں۔
جواد یعقوب ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ مجھے جواب کی کاپی دی جائے مجھے اس پراعتراضات ہیں۔
جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا کہ آپ کیسے اعتراض اٹھا سکتے ہیں؟ 27 اے ضابطہ دیوانی کے تحت معاملہ عدالت اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے درمیان ہے۔
جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ اب آپ کا معاملہ ختم ہوا، آپ نے حکومت کی طرف سے جواب جمع کروانا ہے تو کروا دیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا جواب آ چکا ہے۔
امتیازصدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ غصہ حرام ہے، میں بنچ کا بھر پوراحترام کرتا ہوں۔ کچھ عرصے میں بھی راولپنڈی بنچ کام کرتا رہا ہوں۔
جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ ہم آپ کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں، اس وقت بھی آپ کا احترام کرتے تھے۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت صوبے میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ ہائی کورٹ اور گورنر کو آئینی اختیارات حاصل ہیں دونوں کے دائرہ کارمختلف ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ گورنرنے یہ نہیں کہا کہ وہ حلف نہیں لیں گے۔ گورنرنے کہا کہ اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس پر نوٹ بنا کر صدرمملکت کو بھجوایا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ میں نے ایک کتابچہ تیار کیا ہے جس میں گورنر، صدرمملکت اور وزیراعظم کے درمیان خط و کتابت ہوئی وہ پیش کر رہا ہوں۔