لاہور ہائیکورٹ میں ملزمان کے زیر حراست انٹرویو کرنے کے خلاف دائر درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا گیا ۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے تین صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا ۔
تحریری حکم نامہ کے مطابق بغیر اجازت انٹرویو لوگوں کی پرائیویسی میں دخل اندازی ہے، کسی غیر متعلقہ شخص کی جانب سے کسی بھی شخص کو جواب دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ، بدقسمتی سے یہ سب کام سرکاری عہدے داروں کی مدد کے ساتھ ہوتا ہے،پرائیویسی کا حق آزادی اظہار رائے کی طرح مقدس ہے ، یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ کوئی کسی قانونی جواز کے بغیر مائک اور کیمرے کے ذریعے کسی کی پرائیویسی کو متاثر کرے ۔
تحریری حکم نامہ کے مطابق آئندہ سماعت پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کریں ، آئندہ سماعت پر پیمرا اور ایف آئی اے اپنے زمہ دار افسران کے زریعہ عمل درآمد رپورٹ پیش کریں، کوئی سرکاری عہدیدار ایسے کسی عمل کی حمایت نہ کرے جو بنیادی حقوق کے خلاف ہو ،کوئی سرکاری عہدیدار جو ایسے کسی عمل کی حمایت کرے گا اپنے کیے کا ذمہ دار ہوگا ۔
عدالت نے کیس کی سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی ۔